ادیبہ مبارک کیس، کوئی سانحہ ہونے کو ہے!

تحریر : ارشد فاروق بٹ
‘ننھی کلی ادیبہ کے پاؤں میں جوتے نہیں، ننگے پاؤں گلی میں نکلی اور اٹھا لی گئی۔’
چیچہ وطنی شہر جہاں مجھ سمیت ہر شہری منافقت کے کسی نہ کسی درجے پر فائز ہے وہاں کمسن ادیبہ کو غائب ہوئے 8 روز گزر گئے ہیں۔
ہم اہلیان چیچہ وطنی جن کا دل اربن ایریا میں بسنے والوں کے لیے فوری غمگین ہو جاتا ہے اور گاؤں میں بسنے والوں کے دکھ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ امیر کا کتا بھی مر جائے تو رات بھر ہمیں نیند نہیں آتی اور غریب کی کل کائنات لٹ جائے تو در دل پہ دستک تک نہیں ہوتی۔
ہماری سیاسی قیادت خاموش ہے، درجنوں چندہ خور شہری و فلاحی تنظیمیں خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہیں۔ اور پولیس روایتی انداز میں لاش کا انتظار کر رہی ہے۔
کیا ضروری ہے کہ سانحے کا انتظار کیا جائے؟ بالکل نہیں! ہم میں سے ہر ایک کو اپنے حصے کا کردار ضرور ادا کرنا چاہئے۔
مجھ سمیت وہ تمام والدین جن کو اللہ نے بیٹی کی نعمت سے نوازا ہے، گمشدہ بچی کی ماں اور باپ کا کرب بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔ ایک ایک پل ان پر قیامت بن کر گزر رہا ہے۔
پولیس کو شبہ ہے کہ بچی کو گداگروں نے بھکاری بنانے کے لیے اٹھایا ہو گا۔ گمشدگی کی دوسری وجہ گاؤں کا ہی کوئی گمراہ شخص ہو سکتا ہے۔
میری سماجی تنظیموں اور اہل ثروت افراد سے اپیل ہے کہ متاثرہ خاندان کے لیے فوری طور پہ ریلیف فنڈ قائم کیا جائے تاکہ وہ سراغ رساں کتوں کی مدد سے بچی کی تلاش کے اخراجات برداشت کر سکیں۔ علاوہ ازیں غریب خاندان کو قانونی معاونت بھی درکار ہے۔ ‘کر بھلا ہو بھلا’

اس کیٹیگری سے مزید خبریں پڑھیے
اپنی رائے کااظہار کیجئے

Your email address will not be published.