بین الصوبائی ڈکیت گینگ کی چیچہ وطنی میں موجودگی لمحہ فکریہ
اس بار ڈکیت گینگ بین الصوبائی تھا اور لٹنے والا حسب معمول معروف تاجر

تحریر : ارشد فاروق بٹ
چیچہ وطنی شہر کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو کوئی ایسی شاہراہ نظر نہیں آئے گی جہاں کبھی ڈکیتی نہ ہوئی ہو. خوف شہر کی فضاؤں میں رچ بس گیا ہے. آواز اٹھانے والوں پر مقدمات بنانامعمول کی بات ہے. مقتول یوسف جمال ٹکہ سمیت تمام ہائی پروفائل کیس داخل دفتر ہیں. تاجر تنظیمیں اور انجمنیں بے بس نظر آتی ہیں. ایسے میں ہر نیا سانحہ اس بدبودار پانی میں ارتعاش پیدا کرتا ہے اور لہریں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں.
اس بار ڈکیت گینگ بین الصوبائی تھا اور لٹنے والا حسب معمول معروف تاجر، دیکھتے ہیں لہروں میں ارتعاش کتنی دیر برقرار رہتا ہے.
ڈکیتی کہاں اور کیسے ہوئی؟
واقعہ کچھ یوں ہے کہ چیچہ وطنی بائی پاس سے متصل جناح ٹاؤن میں 6 مسلح ڈاکو سفید رنگ کی (ہنڈا سوک کار نمبر 69 اسلام آباد) پر آئے. اور ڈاکٹر ہما بشیر کے ہسپتال کے عقب میں موجود معروف تاجر چوہدری اسلم اصل ہمدرد بیکرز والے کے گھر کی دیوار پر لگی آہنی تار کاٹ کر داخل ہوئے.
چوہدری اسلم کے مطابق: "ڈاکو پٹھان تھے. اور تیز اردو بول رہے تھے. مثال کے طور پر اگر آپ نے مراد سعید کو سن رکھا ہے تو اس کے لہجے کو ذہن میں رکھیے. ڈاکو دراز قد اور مضبوط جسامت کے مالک تھے. جس طرح سے انہوں نے ڈکیتی کی واردات کو سرانجام دیا وہ اپنے کام میں انتہائی پروفیشنل تھے. آتے ہی انہوں نے سب گھر والوں کو ہینڈز اپ کیا اور موبائل فون لے کر ایک جگہ رکھ لیے. اس کے بعد انہوں نے 22 تولے طلائی زیورات، نقدی، لائسنسی پسٹل ایک صوفے کے کور میں ڈالا. ان کے سامان میں غلطی سے گھر والوں کا ایک موبائل فون بھی چلا گیا. تمام ڈاکوں نے ہاتھوں پر دستانے اور نقاب پہن رکھے تھے اور آدھا گھنٹہ گھر کے اندر رہے.”
اس دوران چوہدری اسلم کا بیٹا گھر آیا تو اس کو دروازہ کھلا ملا. اس نے موٹر سائیکل گھر میں کھڑی کی اور باہر آ کر گھر والوں کو کال کرنے لگا. لیکن ڈاکوؤں نے موبائل فون جیمرز لگا رکھے تھے. ڈاکوؤں کا جو ساتھی باہر گاڑی میں موجود تھا اس نے اپنے ساتھیوں کو بلانے کے لیے مخصوص انداز میں ہارن بجانا شروع کر دیا. چوہدری اسلم کے بیٹے کا شک مزید پختہ ہو گیا اور وہ ڈاکٹر ہما بشیر کے ہسپتال کی طرف بھاگا اور پولیس ہیلپ لائن 15 پر کال کی.
گن مین کی ہلاکت
ڈاکٹر ہما بشیرکے ہسپتال کا گن مین علی احمد (سکنہ ٹبہ نور پور پرانی چیچہ وطنی) ڈاکوؤں کی کار کے نزدیک آیا. اس دوران باقی ڈاکو بھی گھر سے باہر نکل آئے تھے. ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ڈاکٹر ہما بشیر ہسپتال کا گن مین شدید زخمی ہوگیا. زخمی گن مین کو تشویشناک حالت میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ساہیوال ریفر کیا گیا لیکن وہ راستے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا. گن مین علی احمد کے سوگواران میں اسکی بیوی، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں.
ڈاکٹر ہما بشیر ہسپتال انتظامیہ کے مطابق اگر گارڈ خود گاڑی کے قریب جانے کی بجائے انتظامیہ کا آگاہ کرتا تو ہم اس کو گلی میں جانے کی بجائے چھت پہ جانے کا مشورہ دیتے جہاں سے تمام ڈاکو مارے جا سکتے تھے. تاہم اب جو ہو چکا اس کی تلافی ناممکن ہے.
واردات کی اطلاع کے بعد ڈی ایس پی سرکل ساجد محمود گوندل، ایس ایچ او تھانہ صدر محمد آصف نواز تلہ، ایس ایچ اوتھانہ سٹی علی کاظمی، ایس ایچ او تھانہ کسووال اے ڈی شاہین بھی جائے واردات پر پہنچ گئے۔
سکیورٹی کی ناقص صورتحال
ڈاکو واردات کے بعد انڈر گراؤنڈ ہونے کی بجائے تسلی سے اسی کار میں نیشنل ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے میاں چنوں اور پھر خانیوال پہنچے. اس دوران محکمہ پولیس نے دیگر شہروں کی پولیس سے رابطہ کیا یا نہیں اور گاڑی ٹال پلازوں سے کیسے گزر گئی یہ سوال اپنی جگہ جواب طلب ہیں اور مستقبل میں ایسے حادثات سے بچنے کے لیے ٹیسٹ کیس بھی. 15 کی متنازعہ کارکردگی بھی سوالیہ نشان ہے.
کیا مقامی سہولت کاروں کے بغیر ڈکیتی کی وارداتیں ممکن ہیں؟
تجزیہ نگار سلمان بشیر نے اس واقعے کے پس منظر میں کچھ اہم سوالات اٹھائے ہیں. ان کے خیال میں مقامی سہولت کاروں کے بغیر ڈکیتی کی وارداتیں ممکن نہیں. شہر سے چوری ہونے والے موٹر سائیکل کے منظم گروہوں کی گرفتاری کی خبریں آتی رہی ہیں لیکن وہ کون لوگ ہیں جو انکو ” امداد ” فراہم کرتے ہیں ؟ کیا انتظامیہ کے ٹاوٹ بری الذمہ ہیں؟ صرافہ بازار کی ڈکیتی کے حقائق کوئی منظر عام پر لائے گا؟ سلیمی موبائل ڈکیتی اور قتل سے لیکر آج تک کتنی وارداتوں کے مجرم کیفر کردار تک بہنچے؟