لاہور ہائیکورٹ میں سانحہ ساہیوال کی سماعت، مدعی اور ڈی پی او کو نوٹس جاری

لاہور ( چیچہ وطنی نیوز – 21 دسمبر 2021 – ارشد فاروق بٹ ) سانحۂ ساہیوال میں ملزمان کی بریت کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر لاہور ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران سانحۂ ساہیوال کا مدعی جلیل پیش ہوا۔ جسٹس عبدالعزیز نے مدعی جلیل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ نے معاملہ سر پر اٹھایا ہوا تھا، بعد میں ٹرائل کورٹ میں ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ جھوٹی شہادت دینے پر کیوں نہ آپ کو نوٹس دیا جائے۔

اس موقع پر مدعی جلیل نے کہا کہ میں وکیل کرنا چاہتا ہوں۔ جسٹس عبد الزیز نے کہا کہ وکیل بعد میں کر لینا، پہلے یہ بتاؤ عدالت میں کیسے کہا کہ تم قاتلوں سے متعلق کچھ نہیں جانتے؟ جھوٹی شہادت آپ نے دی اور گندگی عدالت پر ڈال دی۔ مرنے والا تمہارا بھائی تھا۔

ہائی کورٹ نے مدعی جلیل کو ٹرائل کورٹ میں جھوٹی گواہی دینے اور سی ٹی ڈی کے ملزمان کو بری کرانے پر نوٹس جاری کر دیا ۔ بعد ازاں عدالت نے دیگر گواہوں کو بھی حقائق چھپانے پر نوٹس جاری کر دیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عبدالعزیز نے استفسار کیا کہ ملزمان کیوں نہیں آئے؟ پولیس اہلکار نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کو عدالتی حکم کی تعمیل کرائی ہے۔

دورانِ سماعت لاہور ہائی کورٹ میں موقع کا گواہ وسیم عدالت میں پیش ہوا جس نے عدالت کو بتایا کہ مجھے ڈی پی او ساہیوال نے یہ بیان دینے کے لیے کہا تھا۔ عدالت نے ڈی پی او کیپٹن ریٹائرڈ محمد علی ضیاء کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔

جسٹس عبدالعزیز نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ واقعے کا دوسرا رُخ بعد میں آتا ہے، پہلے ملک کو پوری دنیا میں بد نام کر دیتے ہیں، برآمدگی کے گواہوں نے بھی کہہ دیا کہ ہمیں کچھ نہیں معلوم، گواہ ٹی وی پر جو کہانیاں سناتے تھے ہم انہیں دیکھ کر روتے تھے، بعد میں سب گواہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے۔

پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ گواہوں کے منحرف ہونے پر سی ٹی ڈی کے ملزمان بری ہو گئے تھے۔ عدالتِ عالیہ نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سانحۂ ساہیوال کی سماعت 17 جنوری تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ سانحۂ ساہیوال 19 جنوری 2019ء کو پیش آیا تھا، اس روز سہ پہر سی ٹی ڈی نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر جعلی مقابلے کے دوران گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی تھی، جس سے شادی میں شرکت کے لیے جانے والا خلیل، اس کی اہلیہ اور 13 سالہ بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور 3 بچے زخمی ہو گئے تھے۔

واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیئے گئے، پہلے واقعے کو بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا گیا، ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔

معاملہ میڈیا پر آیا تو وزیرِ اعظم عمران خان نے نوٹس لے لیا اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، جس کی ابتدائی رپورٹ میں مقتول خلیل اور اس کے خاندان کو بے گناہ قرار دے کر سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ذمے دار قرار دیا گیا تھا۔

تاہم ریاست حرکت میں آئی اور اپنے وردی پوش ملزمان کو صاف بچا لیا اور مدعی اور گواہان کو مجبور کر کے جھوٹی گواہی کے لیے مجبور کیا گیا۔ گواہوں کے منحرف ہونے پر انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اکتوبر 2019ء میں ملزمان سی ٹی ڈی اہلکاروں کو بری کر دیا تھا۔

ملزمان کی بریت کے خلاف پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ جس پر مقدمے کے ٹرائل کا دوبارہ آغاز ہو گیا ہے۔

اس کیٹیگری سے مزید خبریں پڑھیے
اپنی رائے کااظہار کیجئے

Your email address will not be published.