لاچا بمقابلہ ٹائٹ (چست پاجامہ) طنزومزاح

تحریر : مراد علی شاہد دوحہ قطر
لباس کا پہننا جسے انگریزی میں Dress up ہونا کہا جاتا ہے، میرے نزدیک انسان کے dress کاup ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ پتہ چل سکے کہ لباس بھی پہنا ہوا ہے۔

لباس کے بارے میں میری رائے بالکل واضح اور شفاف (transparent ) لباس جیسی ہی شفاف ہے، کہ انسان کو لباس ضرور پہننا چاہئے چا ہے اس میں’’شفافیت‘‘جھلکتی، چھلکتی ہوئی نظر ہی کیوں نہ آرہی ہو۔ اچھا لگنااور دکھنا ہربنی نوع انسان کی فطرت میں شامل ہے اوریہ لباس ہی ہے جس نے انسان کو جنگل سے شہر میں آ کر آباد ہونے کی ترغیب دی وگرنہ آج بھی انسان ’’قدرتی حالت‘‘ میں جنگل میں ہی مسکن پذیر ہوتا۔

شہر میں بسنے سے ہی انسان کی حسِ جمالیات پروان چڑھی جس نے انسان کو سکھایا کہ میرج پارٹی، ایوننگ پارٹی، ڈنر پارٹی، نائٹ پارٹی میں کس طرح کا سوٹ پہن کر جاناچاہئے، ہاں اگربرتھ ڈے پارٹی ہو تومیری نظر میں ایسی پارٹی میں نہیں جانا چاہئے کہ برتھ کے وقت انسان کسی سوٹ میں ملبوس نہیں ہوتا۔

لاچا کرتہ صوبہ پنجاب کا مقبول لباس ہے، کرتہ پر پھر کبھی قلم چلایا جائے گا ۔ ابھی لاچے کے ’’مصائب و محاسن‘‘کا تذکرہ ہی مناسب رہے گا، اگرچہ لاچا پہننے والا خود کو مناسب خیال کرتا ہے تاہم دیکھنے والا کسی طور خود کو ‘‘مناسب‘‘محسوس نہیں کرتا۔ لاچا وہ واحد لباس ہے کہ اسے پہننے کے لئے کسی اوزار بند یا بیلٹ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی بس دو کناروں کو تھاما اور آپس میں گتھم گتھا کر دیا یعنی باندھ دیا.

میرے ایک دوست کا پوچھنا ہوتاہے کہ یار یہ لاچا باندھا جاتا ہے کہ پہنا جاتا ہے تو میرا اس کو جواب ہوتا ہے کہ یہ واحد لباس ہے جسے باندھ کر بھی پہنا جا سکتا ہے اور پہن کر بھی باندھاجا سکتا ہے۔ ہاں باندھ کر بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کب کھل جائے اور آس پاس کے لوگ آپ پر کھلکھلا پڑیں۔ لاچے کے کثیر المقاصد ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ یہ دونوں موسموں میں پہنا، باندھا، اوڑھا اور بچھایا جا سکتا ہے یعنی اسے موسم سرما میں اوڑھ کر سویا جا سکتا ہے جبکہ موسم گرما میں اسے بچھا کر بھی آپ استراحت فرما سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ وقت رات کا ہووگرنہ دن کے اجالے میں ایسی حرکت آپ پہ برا وقت بھی لا سکتی ہے۔

لاچے کو سونے سے قبل باندھا جائے تو بہتر ہے اور اٹھتے ہی سب سے پہلے لاچے کو ہی باندھنے میں آپ کی عزت ہے۔ باقی یہ ہے کہ لاچے کو کوئی جوڑ نہیں ہوتا ، اسے سلوانا نہیں پڑتا، بس پہننا ہی پڑتا ہے اور اور اگر پہنا ہو تو اسے اتارنا بھی نہیں پڑتا کہ پہنا اور اتارا ہوا ایک سا ہی دکھائی دیتا ہے۔ لاچے میں ایک نہیں دو دو پاکٹ ہوتی ہیں جسے پنجابی میں ’’ڈب‘‘ کہا جاتا ہے ۔ ڈب ایسی محفوظ جیب (پاکٹ) ہے جس میں رکھے پیسے سمجھو ڈوب ہی جاتے ہیں۔ اور اگر پیسے کم رکھے ہوں تو ڈب کی سلوٹوں میں انہیں تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوہ قاف کی کسی غار میں گم ہوگئے ہوں ۔ لاچا پہننے والوں کو بس ایک بات کا از بس خیال بہت ضروری ہوتا ہے کہ اسے باندھ کر تیز ہوا اور تماشہ گاہ میں نہیں جانا چاہئے وگرنہ پھر لوگ ہی آپ کا تماشہ دیکھیں گے۔

ٹائٹ یا چست پا جامہ عصرِحاضر کا سب سے in فیشن ہے کہ جس سےout ہونے کے لئے جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتی ہے۔عصرِ عتیق میں کبھی یادگار مشاعروں میں معروف شعرا کرام پاجامہ زیب تن کیا کرتے تھے تاہم ان پاجاموں کی سلائی کچھ ایسی ہوا کرتی تھی کہ ان میں سے ہوا کا ’’گزر‘‘اور ’’بسر‘‘ہو ہی جایا کرتا تھاجبکہ دورِ حاضر میں خواتین نے جو ٹائٹ پہننا شروع کیا ہوا ہے ان میں ’’ہوائے مخصوصہ‘‘کہیں اندر ہی اندر دم گھٹ کے ہی کہیں ’’گزر ‘‘ ہی جاتی ہے۔

مرد کو ٹائی اور عورت کو ٹائٹ اتار کر وہی سکون میسر ہوتا ہے جو تختہ دار کی سزاسے بچ جانے والے مجرم کو نصیب ہوتا ہے۔ٹائی لگانا اور ٹائٹ پہننا الجبرا کے سوالوں کی طرح مشکل ہی نہیں بلکہ دقیق بھی ہوتا ہے۔جس کااندازہ ’’ٹائی یافتہ‘‘مرد کے چہرے اور’’ٹائٹ زدہ‘‘ٹانگوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ٹائٹ وہ واحد لباس ہے جو جسم کا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے رکھ دیتا ہے۔ یعنی یہ ظاہر کرنے میں ذرا نہیں چوکتا کہ ٹانگوں پہ گوشت کی زیادتی ہے یا ہڈیوں کا ٹیڑھا پن زیادہ ہے۔ سمارٹ ٹانگوں پہ پہنا ہوا ٹائٹ ٹانگوں کو مزید مخروطی، سرو نما، یا خوش نما بنا دیتا ہے جبکہ فربہ ٹانگیں ٹائٹ پہن کر ادرک نما ( ہر سو پھیلے ہوئے ڈھیر کی طرح ) دکھائی دیتی ہیں۔

کہتے ہیں ’’کھاؤ من بھاؤنا تے پہنو جگ بھاؤنا‘‘اسی لئے ہمیں ہماری اقدار کے مطابق وہی سوٹ پہننا چاہئے جو ہمیں سوٹ کرتا ہو، آدھا تیتر آدھا بٹیر کے چکر میں ہم خود کی پہچان بھی بھول جاتے ہیں۔اگر ہم dress کوup کرنے کی بجائے اپنی اقدار کے مطابق dress up ہوں گے تو جسم اور ٹانگیں دونوں کو راحت و سکون میسر ہوگا اور زندگی میں سکون سے بہتر کوئی نعمت نہیں ہے۔

اس کیٹیگری سے مزید خبریں پڑھیے
اپنی رائے کااظہار کیجئے

Your email address will not be published.