افسانہ : ماپے (ارشد فاروق بٹ)

"مما مما ! پاپا کب آئیں گے؟”
بہت جلد آئیں گے میری پیاری سی گڑیا اور آپ کے لیے ڈھیر سارے کھلونے لائیں گے۔
"میرے بھیا کو بھی ساتھ لائیں گےنا؟” تین سالہ گڑیا نےاپنی ماں کی گود میں بیٹھے دوبارہ پوچھا۔
ہاں !بھیا بھی ساتھ آئے گا اور آپ کے ساتھ کھیلے گا۔

"میں نے ابھی بھیا کے پاس جانا ہے۔ میں نے اس سے کھیلنا ہے۔”یہ کہتے ہوئے ننھی گڑیا حسب معمول پھر رونے اور ضد کرنے لگی۔
اپنی ننھی گڑیا کو چپ کراتے عافیہ خود بھی رو پڑی۔ اس نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ اسے یوں فٹ پاتھ پہ آنا پڑے گا۔ آج اسے کالج روڈ کے فٹ پاتھ پر بیٹھتے دوسرا دن تھا۔وہ برقعے میں ملبوس تھی اور اس کے سامنے مسواک کی ایک گٹھڑی پڑی تھی۔ کچھ لوگ مسواک خرید لیتے اور کچھ لوگ اسے بھکارن سمجھ کر پانچ دس روپے دے جاتے۔ اس سے کچھ فاصلے پر دو بھکاری عورتیں کاسہ رکھے بیٹھی تھیں جنہوں نے اس دربدر کی ٹھوکریں کھاتی عورت کو پناہ دے رکھی تھی۔ ان میں سے ایک عورت اٹھ کر عافیہ کے قریب آئی اور گڑیا کو ایک کھلونا گاڑی دی جس سے کچھ دیر کے لیے اس کی توجہ بٹ گئی۔

عافیہ نے گاؤں کے ایک زمیندار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ ماں باپ کے گزر جانے کے بعد اس کے حصے میں دو کنال اراضی آئی۔ اس کی شادی خاندان کے ہی ایک مڈل پاس نوجوان سے کر دی گئی جو کہ کرخت اور اجڈ طبیعت کا مالک تھا۔ شادی کے ایک سال بعد اس کے ہاں بیٹی پھر اگلے سال بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ مگرخدا کی ان نعمتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے لالچی شوہر کی نظریں شروع سےاس کی زمین پر تھیں۔

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس کے مطالبے میں شدت آتی گئی۔ جلد ہی عافیہ کی زمین ہتھیانے کے لیےاس کے شوہر نے اس پر تشدد کرنا شروع کر دیا۔ تشدد جب حد سے بڑھا تو عافیہ اپنے دونوں بچوں کو لے کربڑے بھائی کے دروازے پر گئی جہاں بھاوج نے اس کو رکھنے سے انکار کر دیا۔پھر وہ چھوٹے بھائی کے ہاں گئی جہاں اس کی وجہ سے میاں بیوی میں جھگڑا ہونے لگا۔

"بھائیوں کے گھر بچانے کی خاطرمیں ایک مرتبہ پھر اپنے شوہر کے دروازے پر گئی۔” آنسو پونچھتے ہوئےعافیہ ساتھی بھکارن سے گویا ہوئی۔ اس نے صرف اس شرط پرمجھے اپنے گھر رکھاکہ زمین اس کے نام کروا دوں۔
تو کیا تم نے اپنی ساری زمین اپنے شوہر کے نام کروا دی؟ بھکارن نے حیرت سےپوچھا۔
گھر بچانے کے لیے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
تم نے کہا کہ تمارا بیٹا بھی تھا۔ وہ کدھر ہے؟
میرے شوہر نے میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا اور مجھے اور میری گڑیا کو گھر سے نکال دیا۔
کیوں؟ کیوں نکال دیا؟ زمین نام کرانے کے بعد بھی؟

کیا تم نہیں جانتی؟ تم بھی تو میری طرح فٹ پاتھ پر ہو۔ہم عورتوں کو تو ہمارے ماپے بھی نہیں رکھتے۔ تو دوسروں سے ہم کیا توقع رکھیں۔
اچھا بہن میں اپنی جگہ جاتی ہوں۔ جس نے پیدا کیا ہے کوئی راستہ ضرور نکالے گا۔یہ کہتے ہوئے ساتھی بھکارن نقاہت سے اٹھی اور اپنی جگہ پر چلی گئی۔
اب سہ پہر ہونے کو تھی۔ ابھی تک اس کے پاس صرف سترروپے اکٹھے ہوئے تھے۔گڑیا کھیلتے کھیلتے سو گئی۔ عافیہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے گہری سوچ میں مبتلا تھی۔

"میری بیٹی بھی میری طرح اپنے بھیا سے بہت پیار کرتی ہے۔میں ہمیشہ اپنے بھائیوں سے خود جھگڑا کرتی تھی لیکن بعد میں میرے بھائیوں کو ہی مجھے منانا پڑتا تھا۔اب سب کچھ بکھر گیا ہے۔ وقت تمام گھروں کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے۔نہ جانے گھر کا تصور ہمیشہ ایک سا کیوں نہیں رہتا؟ کیوں سب بہن بھائی ایک دوسرے سے پرائے ہو جاتے ہیں۔اور کیوں بیٹیاں اپنے گھر سے نکال دی جاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کے ہاتھ رخصت کر دی جاتی ہیں جو انہیں محض ایک کھلونا سمجھتے ہیں۔ ”

اتنے میں سفید رنگ کی ایک کلٹس اس کے قریب آکے رکی جس میں دو فیشن ایبل نوجوان سوار تھے۔ ان میں سے ایک گاڑی سے نیچے اترا اور عافیہ کے قریب آ کے مسواک کی گٹھڑی اٹھا کر ان کا بھاؤ پوچھا۔ پھر کسی تکلف کے بغیر عافیہ کے جسم پر نظریں جمائے بولا۔
"میں تمہیں پانچ سودوں گا اگر تم ہمارے ساتھ چلو۔”

اس بات نے عافیہ کے تن بدن میں آگ لگا دی اور وہ گالیاں دیتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"دفع ہو جا کمینے کتے۔ اپنی بہن کو ساتھ لے جا ذلیل انسان۔” شور سن کر ننھی گڑیا ہڑ بڑا کر اٹھی اور اپنی ماں کو ایک اجنبی شخض سے جھگڑتا دیکھ کر زاروقطار رونے لگی۔ قریب ہی بیٹھی بھکارن عورتیں بھی وہاں پہنچ گئیں اور تو تو میں میں کرنے لگیں۔
نوجوان کو اپنی بے عزتی ہضم نہ ہوئی۔ وہ چلا اٹھا۔
"اتنی شریف مت بنو سالیو۔ اگر اتنی معصوم ہو تو گھر سے نکلتی ہی کیوں ہو!بھرے بازار میں فحاشی کا اڈا کھول کے بیٹھی ہو۔”
تیرے باپ کی سڑک ہے بھوسڑی کے! عافیہ کی ساتھی بھکارن عورتیں بازو چڑھا کر لڑائی میں کود پڑیں۔ نوجوان ان کو گالیاں بکتے ہوئے گاڑی میں بیٹھا اوراس کے ساتھی نوجوان نے گاڑی بھگا لی۔
عافیہ روتی ہوئی بچی کو چپ کرانے لگی۔ بھکارن عورتیں دیر تک نوجوان کو کوستی رہیں اور پھر عافیہ کو تسلی دیتے ہوئے اپنی جگہ پر جا بیٹھیں۔

اب شام ہونے کو تھی۔ گڑیا اب پھر ماں سے سوال جواب کر رہی تھی۔
ممامما پاپا کب آئیں گے؟
وہ کتا اب کبھی نہیں آئے گا گڑیا بیٹی۔ بھول جا اس لعنتی انسان کو۔
ممامما بھیا پاس جانا ہے۔ مما اس کے ساتھ کھیلنا ہے۔ پاپا اسے غبارے لے کے دیتے ہیں۔ میں بھی غبارہ لینا۔ مما بھیا کے چوٹ لگی تھی۔ بھیا رو رہا تھا۔

گڑیا لگاتار باتیں کر رہی تھی۔لیکن عافیہ کچھ نہیں سن رہی تھی۔ وہ اپنی آنکھوں کواپنے برقعے کے پلو سے چھپائے رو رہی تھی۔
مما مما آپ کیوں رو رہی ہو۔ گندے بچے روتے ہیں۔ ممامما دیکھو ماموں آگئے۔یہ کہتے ہوئے وہ عافیہ کی گود سے نکل گئی۔
عافیہ اپنی بیٹی کے الفاظ سن کر چونکی۔جھٹ سے اشک آلود نظریں اٹھا کے دیکھا توسامنے اپنے چھوٹے بھائی کو کھڑے پایا جس کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے۔گڑیا اپنے ماموں کی ایک ٹانگ سے لپٹی ہوئی تھی۔

اس کیٹیگری سے مزید خبریں پڑھیے
اپنی رائے کااظہار کیجئے

Your email address will not be published.