حاصل تربیت (سیمی طور ، فیصل آباد)

تحریر: سیمی طور، تاندلیاوالا ضلع فیصل آباد

آفس کے سامنے بینچ پہ میں بہت دیر سے سوچ میں گم بیٹھی تھی افسردہ اور نہایت غمزدہ…
یوں جیسے بس ابھی کچھ کھونے جا رہی ہوں شاید اپنا قیمتی اثاثہ….
"آہ”
میں شیزین ابراہیم مجھے ایک فیصلہ کرنا تھا ابھی چند لمحوں میں میری زندگی کا بہت قیمتی فیصلہ…..
ابھی تھوڑی دیر تک بلاوا آنے والا تھا مگر میں ابھی تک کسی نقطے پہ نہیں پہنچ پائی تھی_
بس ہاتھ کانپ رہے تھے اور ٹپ ٹپ آنکھوں سے آنسو رواں تھے_
کوریڈور میں اکا دکا کلرک آجا رہے تھے میں بس چپ چاپ بیٹھی اپنے نصیب کو کرید رہی تھی_
کہ اچانک بلاوا آگیا میں بوجھل قدموں کے ساتھ آفس میں داخل ہوئی _
میم کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟؟
خوبصورت سی مدھم سی نرم آواز میں پرنسپل نے کہا
” یس کم ان ”
پر نسپل کا اشارہ پاتے ہی میں سامنے کرسی پر براجمان ہوگئی_
پرنسپل نرم لہجے میں گویا ہوئی اور فائل کھول کے میرے سامنے رکھ دی_
مجھے معلوم ہے آپ کی شادی طے ہوگئی ہے _
دیکھو بیٹا! دھیان سے میری بات سنو اگر آپ اسکالرشپ پہ جانا چاہتی ہیں تو ہم آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں آپ کے گھر والوں سے بات کر سکتے ہیں فیصلہ آپ کا ہوگا _
پرنسپل اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی
اب میرے ذہن میں دھماکے ہو رہے تھے، فیصلہ مجھے کرنا تھا۔ ایک طرف میرا خواب میرا مستقبل میری خواہش میری تعلیم تھی اور دوسری طرف صرف اور صرف میری ماں کی عزت اور اس کی تربیت تھی _
"آہ”
سینے سے ایک آہ سی نکلی پرنسپل دوبارہ گویا ہوئی _
ٹائم بہت کم ہے بیٹا لیکن پھر بھی آپ چاہتی ہیں تو تھوڑا ٹائم لے لیں مگر اچھی طرح سے سوچ لیں….
بار بار ایسے مواقع نہیں آتے آپ خوش قسمت ہیں آپ کو چانس مل رہا ہے میں آپ کے فیصلے کی منتظر ہوں….
میرے منہ سے لفظ نکلا
"چانس”
اف چانس بھی تب مل رہا ہے جب شادی طے ہو گئی_
تو کیا میں شادی سے انکار کر دوں؟؟
سوچ کی پرچھائیوں پہ ماں کا عکس لہرایا…..
پرنسپل کو ایک سرد نگاہ سے دیکھا اور لرزتے ہوئے ہاتھوں سے قلم تھاما…
ہاتھ کی پشت سے آنسو کچل ڈالے چند الفاظ زبان سے پھسلے….
میں ماں کا سر جھکا نہیں سکتی، میری ماں نے میری تربیت بہت اچھے لفظوں میں کی ہے۔ میں نہیں چاہتی
کہ میری ماں کو میری تربیت کرنے پر کوئی پچھتاوا ہو۔ مجھے میری ماں کی عزت بہت عزیز ہے۔ میں اپنی ماں کا سر شرم سے نہیں جھکا سکتی…
مجھے یہ سکالر شپ نہیں چاہیے_
یہ کہتے ہوئے لرزتے ہاتھوں سے میں نے اپنے خوابوں کو قلم کی نوک تلے کچل ڈالا اور چپ چاپ ان چاہے شخص کے ساتھ عمر بتانے کا فیصلہ کرلیا _
کوریڈور میں نکلتے ہی میری پیاری دوست نازی جو میرا انتظار کر رہی تھی _
غصے سے مجھے گھورنے لگی…
تم نے یہ کیا کر دیا؟؟
تم ایسا کیسے کر سکتی ہو میری دوست؟
تم نے شادی سے انکار کرنے کی بجائے اسکالرشپ ہی ریجیکٹ کر دی_
شیزین میری دوست تم یورپ چلی جاتی، وہاں اچھی تعلیم حاصل کر سکتی تھی۔ اپنا ایک بہترین مستقبل بنا سکتی تھی۔ تمہیں ویزا آفر کر رہے تھے مگر تم….
تعلیم تمہارا حق تھا میری دوست۔
تعلیم میں تو بغاوت بھی جائز ہوتی ہے، تم کچھ تو بغاوت کرتی_
صد افسوس ہے مجھے تم پر…
خوبصورت سرسبز لان جو آفس کے ساتھ ہی ملحقہ تھا نازی میرا ہاتھ تھامے کھینچتی ہوئی وہاں لے آئی اور اب سکون سے بیٹھ کر گفتگو کا آغاز کیا_
تم چاہتی ہو کہ میں اپنی ماں کی محبت کے خلاف بغاوت کروں حالانکہ میری ماں نے مجھے بغاوت کرنا نہیں سکھایا..
تو کیسے؟
کیسے میں اس شادی سے انکار کر دوں، تم جانتی ہو میرے تایا کبھی نہیں مانیں گے۔ اگر آج میرا باپ زندہ ہوتا تو مجھے سوچنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ تایا ابو تو شروع ہی سے تعلیم کے سخت خلاف تھے۔ یہ تو میری ماں کی محبت تھی جس نے تمام خاندان والوں کی ناراضگی مول لینے کے باوجود مجھے پڑھنے کے لئےیہاں ہاسٹل بھیج دیا۔
تایا ابو نے بھی صرف یہاں تک کی اجازت دے رکھی ہے۔
اور اگر میں شادی سے انکار کر بھی دوں تو میری ماں بہت اذیت جھیلے گی..
خاندان والے میری ماں کو تکلیف پہنچائیں گے_
میری دوست میں تمہارے خلوص کو سمجھتی ہوں مگر میرے تایا بہت سخت ناراض ہوں گے۔ تم جانتی ہو بچپن ہی سے میرے تایا ابو ہی میرے سرپرست رہے ہیں۔ باپ کو ہم نے بچپن ہی میں سپرد خاک کر دیا تھا_
تایا ابو نے اگر کوئی فیصلہ کر لیا ہے تو اب میری ماں بھی ان کے سامنے بے بس ہیں _
میں نہیں چاہتی کہ میری ماں کے لئے میری تربیت گالی بن جائے_
یہ معاشرہ میری ماں کی تربیت پر انگلی اٹھائے، میری ماں نے میری بہت اچھی تربیت کی ہے۔ میری پرورش کرنے میں میری ماں نے بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ اگر مجھے آج کوئی قربانی دینے پڑ رہی ہے تو میں کیوں جھجکوں…
میری ماں نے میری ایسی تربیت نہیں کی ہے میری پیاری دوست!
کہ میں خود غرض بن جاؤں۔
میری ماں نے ہمیشہ مجھے دوسروں کا احساس کرنا سکھایا۔ خاص طور پر شاید رشتوں کی پاسداری رکھنا تو میری ماں سے میری گھٹی میں ہے_
میرے خیال میں اب میری سمجھ دار دوست میری بات کو سمجھ گئی ہو گی_
نازی مسکرا کے نم آنکھوں سے بولی۔
مجھے تم پر فخر ہے میری دوست، مگر میری دعا ہے کہ تم اپنے خوابوں کی کرچیوں کو سمیٹ کر پوری زیست ان کا بوجھ سہہ سکو _
تم نازی میرا سامان پیک کر دو، آج سے میں ہوسٹل چھوڑ دوں گی۔
یہ کہتے ہوئے میں اٹھ کھڑی ہوئی اور سست قدموں سے اپنی ان چاہی منزل کی طرف روانہ ہوگئی_
دل ہی دل میں ماں سے مخاطب تھی….
"آہ” میری ماں!
میری پیاری ماں میری سلجھی ہوئی ماں………
آپ نے میری اتنی اچھی تربیت کیوں کی…؟
کاش کہ
میری تربیت میں تھوڑا سا خودغرضی کو بھی ملا دیتی..
اے کاش کہ
مجھے خود غرض بننا سکھا دیتی تو آج میں خود غرض بن کر فیصلہ کرتی مگر…..
یہ میری تربیت اور میری ماں کی تربیت تھی. _
"تربیت وہ ہے جو صرف اور صرف ایک ماں کرتی ہے اولاد سے خاندان اور خاندان سے معاشرہ اور معاشرے سے پوری قوم کی تربیت صرف ماں کرتی ہے_”
"ماں صرف ایک نسل کو ہی نہیں پورے معاشرے کو اور پوری قوم کو تشکیل دیتی ہے، تربیت وہ فصل ہے جو بوء گے وہی کاٹو گے”_

اس کیٹیگری سے مزید خبریں پڑھیے
اپنی رائے کااظہار کیجئے

Your email address will not be published.